ہمیں20 جنوری 2025 کے بعد ڈونلڈٹرمپ کےامریکا اور مشرق وسطیٰ کے تعلقات کا تصوراتی جائزہ لینے سے پہلے ری پبلکن صدر کے
ہمیں20 جنوری 2025 کے بعد ڈونلڈٹرمپ کےامریکا اور مشرق وسطیٰ کے تعلقات کا تصوراتی جائزہ لینے سے پہلے ری پبلکن صدر کے گزشتہ دور حکومت میں معاہدہ ابراہم کو ذہن میں رکھنا چاہئے ۔ یہ معاہدہ ابراہم ہی تھا جس کے نتیجے میں بحرین، مراکش اور یو اے ای کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرلیا گیااور سعودی اسرائیل ڈیڈل لاک کا خاتمہ ہوا ۔ ہمیں وہ منظر نامہ بھی یاد ہونا چاہئے,جب اسرائیل نے تل ابیب کی جگہ یروشلم کو اپنا دارلحکومت بنانے کااعلان کیا اور ٹرمپ انتظامیہ نے اس کی تائید کرتے ہوئے سب سے پہلے اپنا سفارتخانہ یروشلم منتقل کیااور یوں مسئلہ فلسطین کے دوریاستی حل کے امکان کو تباہ کردیا گیا۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں امریکن عربوں کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے غزہ جنگ ختم کرانے کا ایک سرسری ساسیاسی بیانیہ ضرور اختیار کیا لیکن قرین وقیاس سے نہیں لگتا کہ وہ غزہ کی جنگ بند کرانے میں کوئی حقیقی دلچسپی رکھتے ہیں۔ بلکہ اُن کے دورصدار ت میں اُن کی توجہ مڈل ایسٹ میں اسرائیلی چوکیداری کا نظام مستحکم کرنے پر مرکوز رہنے کا زیادہ امکان ہے ۔
یہ امکان اس لیے بھی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا سابقہ دورصدارت اسرائیل کے سہولت کار امریکی صدر کے طور پر یاد رکھا جا تا ہے ، معاہدہ ابراہم اور یروشلم کو اسرائیلی دارلحکومت بنانے کی تحریک اس کی عمدہ مثال ہے ۔۔ اس لیے اب کی بار مڈل ایسٹ میں علاقائی سیاست کی نئی صف بندی ڈونلڈ ٹرمپ کا استقبال کرے گی ۔
۔
نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیلئے لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’[email protected]‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔