جدید چمچماتی گاڑیاں، پرانے وعدے اور وہی سبز باغ: پھر نومبر آگیا اور ایک اورعالمی ماحولیاتی کانفرنس COP لایا۔ دوبارہ پوری دنیا سے فیول اڑاتے جہازوں میں وفود
جدید چمچماتی گاڑیاں، پرانے وعدے اور وہی سبز باغ: پھر نومبر آگیا اور ایک اورعالمی ماحولیاتی کانفرنس COP لایا۔ دوبارہ پوری دنیا سے فیول اڑاتے جہازوں میں وفود پہنچ رہے ہیں۔ اس بار ملک ہے آذربائیجان اور شہر ہے دارالحکومت باکو، سب مل کر 11 نومبر کے بعد دنیا کو درپیش سب سے بڑے چیلنج "کلائمٹ چینج" سے مقابلہ کرنے کی اجتماعی حکمت عملی پر غور کریں گے۔
سچ تو یہ ہے کہ سال 2023 اور 2024 ماضی کی نسبت زیادہ قدرتی آفات لایا۔ ان دو سال میں خطرات بڑھ گئے اور مستقبل پر بھی خدشات منڈلا رہے ہیں۔ اب کاپ 29 اُس وقت ہو رہی ہے جب کرہ اراض پر اربوں انسان نازک وقت اور دنیا گلوبل وارمنگ کے کچے دھاگے پر چل رہی ہے۔
بعض میڈیا رپورٹس کے مطابق اس وقت دنیا میں تقریباً پونے 8 کروڑ افراد بھوک و افلاس کا شکار ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلی کے خطرات کو کنٹرول نہ کیا گیا گیا تو مزید تقریباً 2 کروڑ لوگ بھوک کی وادی میں چلے جائیں گے۔ یونائیٹڈ نیشنز انوائرمنٹ پروگرام نے بھی تصدیق کی ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والے بحران کے باعث عالمی امن اور سلامتی کو خطرات لاحق ہیں۔
اقوام متحدہ خود بھی ہر روز دنیا کو احساس دلا رہی ہے کہ حالات سنبھالنے کے لئے تمام ممالک کوسوچ و بچار سے متحد ہو کر آگے بڑھنا ہو گا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوترس عالمی رہنماؤں کو وارننگ دے رہے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے ہم آہنگ ہونے کی کوششوں کے دوران ماحولیاتی مساوات نظرانداز نہیں ہونے چاہئیں۔
کاپ 29 میں دنیا بھر کی پولیٹیکل ایلیٹ کے سہانے خواب اور وعدے اپنی جگہ، لیکن اس حقیقت سے آنکھیں نہیں چرائی جا سکتیں کہ ترقی پذیر ممالک اُس تباہی کا شکار ہیں جس کے وہ ذمہ دار نہیں۔ امیر ممالک کے لئے منصفانہ اور ہمدردانہ درست فیصلے کرنے کا وقت آگیا ہے۔ یہ کانفرنس خود اپنے لئے ایک چیلنج ہے۔ ڈونر ممالک کو تقریباً 800 ملین امریکی ڈالر کے وعدوں کو پورا کرنے کے لیے پیش رفت کرنا ہو گی۔ کوئی نہیں چاہے گا کہ کاپ 29 بھی کولمبیا کے شہر کالی میں ہونے والی سولہویں عالمی کانفرنس کی طرح ناکام ہو جائے جو بائیوڈائیورسٹی کے بچائو کے لئے کوئی بڑا فیصلہ کیے بغیر ختم ہوگئی۔ امیر ممالک کا مزاج خوشگوار نہ ہونے کے باعث شرکاء کوئی امدادی فنڈ قائم کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے، بائیوڈائیورسٹی کریڈٹ کے خدوخال واضح کرنے کے حوالے سے بھی کوئی پیش رفت نہیں کی جاسکی۔ اسی طرح ترقی پذیر ممالک میں بائیوڈائیورسٹی کے بچائو کے لیے کوئی واضح لائحہ عمل بنایا جاسکا۔ اس لئے ایسا نہ ہو کہ کاپ 29 کے اختتام پر کلائمٹ ایکٹوسٹس پھر یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ امیر ممالک کا یہ کلب ایک بار پھر غریب دنیا کے جذبات، احساسات اور ضروریات سمجھنے میں ناکام رہا، امیر دنیا کی خاص کلاس نے باکو کا موسم انجوائے کیا، دوستوں اور پیاروں کیلئے آزربائیجان کی کچھ سوغاتیں اور تحائف لے کر فوسل فیول سے اڑنے والے جیٹ طیاروں کی بزنس کلاس میں بیٹھ کر اپنے دیس واپس چلے گئے جہاں وہ اب پوسٹ کاپ 29 اجلاسوں میں حسین تجربات تو بیان کریں گے لیکن کوئی فیصلہ پیش نہیں کر سکیں گے۔
ہر سال کانفرنس الگ الگ ممالک میں منعقد کرنے کا مقصد تو یہ تھا کہ مختلف خطوں کے ممالک اپنی آواز بلند کر سکیں اور ماحولیاتی تبدیلی کے مسئلے پر عالمی توجہ مرکوز رہے، لیکن اب تک زیادہ یہ حکمت عملی ناکام رہی۔
اب تک کے تقریباً تمام اجلاسوں میں موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے ترقی پذیر ممالک کو مالی امداد دینے کا معاملہ سب سے بڑا اختلاف بن کر سامنے آیا ہے۔ متاثرہ غریب ملک کلائمٹ جسٹس اور مالی معاوضے کا مطالبہ کرتے ہیں، لیکن امیر ممالک کان ہی تک نہیں دھرتے یا پھر بہت کم رقم دینے پر تیار ہوتے ہیں۔ اگر کاپ ذمہ دار ممالک کو متاثرہ معاشروں کی مدد کا کہتی بھی ہے، لیکن اس بات پر اتفاق نہیں ہو پاتا کہ مدد کس شکل میں اور کتنی مقدار میں دی جائے؟
اس سوال کے کئی جوابات ہیں کہ اب تک متاثرہ ممالک کی مدد میں بڑی کامیابی کیوں نہیں ہوسکی؟ اول یہ کہ ترقی یافتہ ممالک وعدے کے مطابق مالی امداد نہیں دے رہے۔ دوئم مختلف ممالک کے اپنے اپنے مفادات ہیں جس کی وجہ سے مشترکہ حل تلاش کرنا مشکل ہوتا ہے اور امیر ملک ایک پیکج پر نہیں آسکتے۔ انصاف پر مبنی فیصلے اور کلائمٹ جسٹس نہ ہونے کی سیاسی وجوہات بھی ہیں۔ کلائمٹ چینج کا مقابلہ کرنے کے لئے بہت سرمایہ کاری کی ضرورت ہوتی ہے، اس لئے امیر ملک سرمایہ کاری کے جواب میں منافع نہ ملنے کی وجہ سے بھی انویسٹمنٹ نہیں کرتے۔ بعض ممالک کا ایجنڈا اور ترجیح ہی موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے سے زیادہ اپنی معیشت کو مضبوط بنانا ہوتی ہے۔
کوپس کے باوجود موسمیاتی تبدیلی میں کمی کیوں نہیں ہورہی؟ یہ بھی اہم سوال ہے جس کی بھی کئی وجوہات ہیں۔ ایک تو کانفرنس کے فیصلوں پر عملدرآمد نہیں ہوتا، پھر کوئی ایسا فورم بھی نہیں جو وعدے کرنے والے ممالک کو عمل پر مجبور کر سکے۔ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے جو نئی ٹیکنالوجی درکار ہے، وہ ابھی دستیاب نہیں۔ دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی بھی ہر گزرتے دن کے ساتھ معاملے کو سنگین بنا رہی ہے۔
کاپ کے اتفاق رائے اور فیصلوں پر عملدرآمد نہ ہونا بذات خود الگ ایک مسئلہ ہے۔ فوسل فیول کمپنیاں، کار انڈسٹریز اور دیگر بڑے کاروباری ادارے اکثر کوپ میں سخت فیصلے ہونے سے روکتے ہیں کیونکہ کلائمٹ سے ہم آہنگ فیصلوں پر عمل کی صورت میں ان کے بزنس مفادات اور کاروبار کو نقصان پہنچ سکتا ہے، لیکن کاربن پیدا کرنے والے دنیا کے تین سب سے بڑے ملک، امریکا، چین اور یورپی یونین سنجیدہ اقدامات کریں تو کوپ کو بڑی کامیابی مل سکتی ہے۔
سائنس دانوں، میـڈیا اور کلائمٹ ایکٹوسٹس کی کوششوں و چیخ و پکار کے باوجود کاربن کا اخراج بڑھتا جا رہا ہے جبکہ کنٹرول کے اقدامات کم ہوتے جا رہے ہیں۔ ماہرین اور سائنسدان واضح کر رہے ہیں کہ محض کاربن کے اخراج میں کمی ہی کافی نہیں بلکہ حقیقی عمل کا وقت آن پہنچا ہے، اب فوسل فیول انڈسٹریز کو ریگولیٹ کرنا اور اخراج پر ٹیکس کا نفاذ ناگزیر ہے۔
ماحولیاتی تبدیلی آج کی دنیا کا سب سے بڑا چیلنج ہے اور تقریباً ہر ملک سنگین صورتحال سے دو چار ہے، اسی لئے کاپ سے 29 بہت توقعات وابستہ ہیں۔ دعا تو یہ ہے کہ امیر ملک ماضی کے وعدے پورے کریں۔ امید کی کرن تو بس سائنس دانوں کی یہ پیش گوئی دکھائی دیتی ہے کہ امیر ممالک کی لاپرواہی کے باوجود ہم ناقابل واپسی نشان سے دور ہیں جہاں تک پہنچنے کے بعد واپسی تقریباً ناممکن ہو جائے گی، لیکن عالمی برادری کو مل کر کوششیں کرنی چاہئیں کہ کرہ ارض مزید گرم نہ ہو۔ اس مشترکہ مقصد کے حصول کے لئے مفادات کو پس پشت ڈال کر شانہ بشانہ آگے بڑھنا ہو گا۔
ماحولیاتی تبدیلی کا چیلنج عالمی برادری سے متحد ہو کر بحران کے مقابلے کا متقاضی ہے جبکہ ناکامی کی صورت میں حالات بے قابو ہو جائیں گے۔ اس کا واحد راستہ خود ملکوں کے اندر اور عالمی سطح پر کلائمٹ چینج سے ہم آہنگ مشترکہ منصوبے ہیں جو اس صدی کے اختتام تک کے مخدوش حالات کا جامع، دیرپا اور عملی حل پیش کر سکیں۔ ایسا حل جو ہر ملک کے لئے مساوی ہو، ہر قسم کے موسمی حالات سے ہم آہنگ، سستا، جدید، ماحول دوست اور جامع ہو۔ دنیا کی بقاء کے لئے ایسی انقلابی ٹیکنالوجی اور تکنیکس متعارف کرانا وقت کی ضرورت ہے جو قطب شمالی اور قطب جنوبی کے تمام خطوں کی دسترس میں بھی ہو اور سب کے لئے یکساں مفید بھی.
.
نوٹ: یہ مصنفہ کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
۔