بوستان جنکشن سے اگلا اسٹیشن ”یارو“ہے، اس کو دیکھتے ہی گانا یاد آجاتا ہے ”یارو مجھے معاف کرو میں نشے میں ہوں“ نشہ تو یارو کے قریب بھی ہے

مصنف:محمدسعیدجاوید قسط:203سن 1980ء کی دہائی میں اس ریل گاڑی نے بھی دیگر برانچ لائنوں کی طرح آخری ہچکیاں لینا شروع کردی تھیں۔ اورایک بار پھرمالی خسارے کا

Jul 31, 2025 IDOPRESS

مصنف:محمدسعیدجاوید


قسط:203


سن 1980ء کی دہائی میں اس ریل گاڑی نے بھی دیگر برانچ لائنوں کی طرح آخری ہچکیاں لینا شروع کردی تھیں۔ اورایک بار پھرمالی خسارے کا رونا رو کر 1986ء میں اس لائن کو بھی مکمل طور پر بند کر دیا گیا اور ریلوے کے محکمے والوں نے یہ پٹریاں اکھاڑ کر انھیں 30 کروڑ روپے میں نیلام کر دیا، اور جو کچھ باقی بچا تھا مقامی لوگوں نے بیچ کھایا۔ یہ نیرو گیج پٹری چونکہ آئندہ کسی کام آنے والی نہیں تھی اس لیے خریداروں نے اس کا لوہا پگھلا کر دیگر کاموں میں لگا دیا گیا۔


مستقبل میں اگر یہاں کبھی کوئی پٹری بچھانے کی ضرورت محسوس کی گئی تو ظاہر ہے وہ بھی سارے پاکستان ہی کی طرح براڈ گیج ہی ہو گی، جو کوئٹہ چمن لائن کے ساتھ جا ملے گی۔شنید ہے کہ سی پیک منصوبے کے تحت چین والے ایک بار پھراس روٹ کو استعمال کرکے اس پر ریلوے کی نئی پٹری اور جدید مواصلاتی نظام نصب کرنے کا پروگرام ہے جو پاکستان کا تیسرا اورمغربی روٹ کہلائے گا جو بعدازاں حویلیاں سے ہوتا ہوا چین کی سرحد پر واقع خنجراب تک جا پہنچے گا۔


اس ریلوے لائن کے بند ہو جانے سے کچھ دن پہلے ان کے انجنوں، بوگیوں اور مال گاڑیوں نے اپنا آخری سفر مکمل کیا تھا، انجن تو نہ جانے کدھر گم ہو گئے لیکن بوستان ریلوے اسٹیشن کے آس پاس درجنوں کی تعدادمیں چھوٹی چھوٹی کھلونا نما مسافر بوگیاں اور مال گاڑیوں کے ڈبے ابھی تک کھڑے ہیں اور اپنے سنہری دور کو یاد کر کے روتے ہیں، یہ اب پاکستان میں کسی کام کے نہیں رہے تھے اس لیے ان کو گئی گزری تاریخ کا حصہ سمجھ کر اسے نکال باہرکیا ہوا ہے۔ ان پرسفر کرنا تو درکنار کوئی دوسری نظر بھی نہیں ڈالنا گوارا نہیں کرتا۔


اب چونکہ یہاں ریل گاڑی چلنا بند ہوگئی ہے تو ساری معدنیات،پھل اور سبزیاں وغیرہ تیز رفتار ٹرکوں اور ٹریلیروں کے ذریعے دوسرے شہروں کو بھیجی جاتی ہیں۔لگتا ہے ہم اپنی منزل سے بھٹک کر کہیں دور جا نکلے ہیں لیکن کیا کیجئے کہ بلوچستان میں اتنے خوبصورت اور مشہور مقامات ہیں کہ ان سے صرفِ نظر کرکے چْپ چاپ آگے بڑھ جانا بھی ممکن نہیں ہے۔ ہم بہرحال دوبارہ اپنی کوئٹہ سے چمن جانے والی ریل گاڑی پر چڑھتے ہیں اور آگے بڑھتے ہیں۔


پشین۔ذراہٹ کے


بوستان جنکشن سے اگلا اسٹیشن ”یارو“ہے، عجیب سا نام ہے نا! اس کو دیکھتے ہی گانا یاد آجاتا ہے کہ”یارو مجھے معاف کرو میں نشے میں ہوں“۔ نشہ تو یارو کے قریب بھی ہے۔ یہ گو ایک چھوٹا سا اسٹیشن ہے لیکن بہت اہم ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ یہاں سے ایک سڑک کوئی 10 کلومیٹر کا سفر طے کر کے بلوچستان کے ایک اور اہم اور تاریخی قصبے پشین پہنچتی ہے، جو ایک بہت ہی خوبصورت اورسَر سبز علاقہ ہے جہاں پھلوں کے باغات اور بے شمار ہرے بھرے کھیت حدنظر تک پھیلے ہوئے ہیں۔یہاں انار، سیب، انگور اور آلو بخارہ کے علاوہ ناشپاتی اور چیری کے بڑے بڑے فارم بھی ہیں۔کہیں کہیں پستہ اوربادام وغیرہ بھی اگائے جاتے ہیں۔ ہر قسم کی سبزیوں، پیاز، تربوز، خربوزے وغیرہ کے کھیت بھی جا بجا نظر آ جاتے ہیں۔


(جاری ہے)


نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

آل اسٹار ٹیکنالوجی آن لائن ٹیکنالوجی: ٹیک، AI، ایرو اسپیس، بایوٹیک، اور توانائی کی خبروں کے لیے آپ کا ذریعہ

آرین اسٹار ٹیکنالوجی، ایک ٹیکنالوجی نیوز پورٹل۔ ٹیکنالوجی، مصنوعی ذہانت، بائیوٹیکنالوجی، ڈیٹا اور دیگر شعبوں میں تازہ ترین پیشرفت کی اطلاع دینے کے لیے وقف ہے۔
© ایرن اسٹار ٹیکنالوجی رازداری کی پالیسی ہم سے رابطہ کریں