ٹی ٹی اپنا کام نبٹا کر کسی خالی نشست پر خزانے کا سانپ بن کر بیٹھ جاتا، بیت الخلاء بھی ایک خاص مدت سے زیادہ کسی کو پناہ نہیں دے سکتا تھا 

مصنف:محمدسعیدجاوید قسط:276ایسے موقعوں پر والدین کی ایک دلچسپ بحث و تکرار ان کے بچوں کی عمروں کو لے کر بھی چلتی ہے۔ 3سال سے کم عمر بچے مفت، 3سے 12 سال تک

Oct 13, 2025 IDOPRESS

مصنف:محمدسعیدجاوید


قسط:276


ایسے موقعوں پر والدین کی ایک دلچسپ بحث و تکرار ان کے بچوں کی عمروں کو لے کر بھی چلتی ہے۔ 3سال سے کم عمر بچے مفت، 3سے 12 سال تک کے لیے آدھا کرایہ اور اس سے اوپر سالم یعنی پورا کرایہ دینا پڑتا ہے۔ کچھ لوگ پیسے بچانے کی خاطر بچے کو گھر سے پٹی پڑھا کر لاتے ہیں کہ جب ٹی ٹی بابو پوچھے تو اپنی عمر 12 سال سے کم ہی بتانا۔ لیکن بابو بھی کوئی کچی گولیاں نہیں کھیلا ہوا ہوتا ہے۔ وہ باتوں ہی باتوں میں بچے سے پوچھ لیتا ہے کہ وہ آج کل کونسی کلاس میں پڑھتا ہے۔معصوم سا بچہ شوخی میں آ کر نہ صرف اپنی کلاس بلکہ اس کے ساتھ سیکشن بتانا بھی نہیں بھولتا۔ ٹی ٹی بابو دل ہی دل میں کچھ جمع تفریق کرکے اس کی اصل عمر کے قریب قریب پہنچ جاتا اور پھر اس کے والدین کو تھوڑا بہت شرمندہ کرکے بچے کے ٹکٹ کے پیسے بھی وصول کرلیتا ہے۔ایک دفعہ میرا ایک کزن بھی سفر کے دوران پکڑا گیا تھا جس کو آدھے ٹکٹ پر سفر کروایا جا رہا تھا۔ جب اس سے اس کی عمر کے بارے میں پوچھا گیا تو وہ رٹایا ہوا سبق بھول گیااور اس نے صاف کہہ دیا کہ ”جی عمر کا تو پتہ نہیں پر میں آٹھویں جماعت میں پڑھتا ہوں“ظاہر ہے اس کا یہ سچ اس کے والدین کو کتنا مہنگا پڑا ہو گا۔


پرانی گاڑیوں میں اندر ہی اندر سے ایک ڈبے سے دوسرے میں ہجرت کرنے کی سہولت نہیں ہوتی تھی۔ اس لیے جب ٹی ٹی بابو اس میں داخل ہوتا تو اگلے اسٹیشن تک وہ وہیں موجود ہوتا تھا،جس کی وجہ سے بغیر ٹکٹ مسافروں کو ادھر اْدھر چھپنے کا موقع ذرا کم کم ہی ملتا تھا۔ بیت الخلاء بھی ایک خاص مدت سے زیادہ کسی کو پناہ نہیں دے سکتا تھا کیونکہ باہر کوئی انتہائی مجبورشخص اپنی حاجت روائی کے لیے دروازہ پیٹ پیٹ کر ہلکان ہو جاتا اور با آواز بلند اندر پناہ لیے ہوئے بے ٹکٹ مسافر کو اس ہنگامی صورت حال کا احساس دلاتا رہتا تھا۔


ساٹھ ستر مسافروں کے ٹکٹ چیک کرنے میں وقت ہی کتنا لگتا تھا، اس لیے جلد ہی وہ اپنا کام نبٹا کر وہیں کسی خالی نشست پر خزانے کا سانپ بن کر بیٹھ جاتا تھا۔ پھرجیسے ہی کوئی انجانا اور بے اصول شخص اپنی پنا ہ گاہ سے باہر نکلتا، تو فوراً دھر لیا جاتا تھا۔ٹی ٹی بابو کسی عقاب کی سی پھرتی سے ایسے سہمے ہوئے کبوتر پر جھپٹ پڑتا اور پھروہ پہلا سوال ہی یہ کرتا ہے کہ”چلو ٹکٹ دکھاؤ“۔


البتہ اگلا اسٹیشن آنے تک اگر وہ کسی جادو گر کے خرگوش کی طرح اس کی نظروں سے اوجھل رہ کر یہ برا وقت گزار لیتا ہے تو پھراگلے چند گھنٹے وہ بے فکر ہو کر سکون سے سفر کر سکتا تھا۔ البتہ اپنی منزل مقصود والے اسٹیشن پر اسے باہر جانے کے لیے ایک بار پھر ایسی ہی مشکل صورت حال سے گزرنا پڑتا ہو گا۔ یہ بہرحال اس کا مسئلہ ہے وہ خود ہی اسے حل کرے۔اب اس کو اسٹیشن سے نکالنے کی خاطر میں بھلا اپنی کتاب کے صفحے کیوں بڑھاؤں؟


دور حاضر میں حالات کافی بدل گئے ہیں، زیادہ تر نشستوں کی پیشگی بکنگ ہو چکی ہوتی ہے۔ اس لیے ایسے مواقع کم ہی آتے ہیں اور جو آ بھی جاتے ہیں تو وہاں کچھ دے دلا کرمسئلے کا حل نکال لیا جاتا ہے اور کسی کو کانوں کان خبر بھی نہیں ہوتی۔مانگنے والے اور سودا فروش اب بھی نچلے درجے کے ڈبوں میں حال دہائیاں مچاتے پھرتے ہیں لیکن حالات اب ماضی سے قدرے بہتر ہیں۔


(جاری ہے)


نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

آل اسٹار ٹیکنالوجی آن لائن ٹیکنالوجی: ٹیک، AI، ایرو اسپیس، بایوٹیک، اور توانائی کی خبروں کے لیے آپ کا ذریعہ

آرین اسٹار ٹیکنالوجی، ایک ٹیکنالوجی نیوز پورٹل۔ ٹیکنالوجی، مصنوعی ذہانت، بائیوٹیکنالوجی، ڈیٹا اور دیگر شعبوں میں تازہ ترین پیشرفت کی اطلاع دینے کے لیے وقف ہے۔
© ایرن اسٹار ٹیکنالوجی رازداری کی پالیسی ہم سے رابطہ کریں