جو کوئی کسی سیاسی جماعت کا آلۂ کار بنے اسے سرکاری نوکری سے ہی فارغ کردینا چاہیے مگر سوال یہ ہے ”بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا“

مصنف:شہزاد احمد حمیدقسط:244سر! مہربانی کرنا؛ شام کو وہ میرے دفتر چلے آئے اور کئی گھنٹے بیٹھ کر سارا پنڈنگ کام مکمل کیا۔ان سے شناسائی اچھی یاد اللہ میں

Jul 31, 2025 IDOPRESS

مصنف:شہزاد احمد حمید


قسط:244


سر! مہربانی کرنا؛


شام کو وہ میرے دفتر چلے آئے اور کئی گھنٹے بیٹھ کر سارا پنڈنگ کام مکمل کیا۔ان سے شناسائی اچھی یاد اللہ میں بدل گئی۔ ایک روز میں، وہ اور جہلم سے آئے ان کے کولیگ گپ شپ لگا رہے تھے کہ ایک وکیل صاحب بڑے ادب سے جھکے ان کے دفتر داخل ہوئے اور خوش آمدی مسکراہٹ سے ایک درخواست ان کے آگے رکھتے بو لے؛”جناب! ذرا مہربانی فرما دیں۔“ انہوں نے دستخط کر دئیے۔ وہ چلا گیا۔ ان کا کولیگ کہنے لگا؛”یار! اے مہربانی کونسا قانون ہے۔“ وہ مسکراتے بولے؛”ماتھڑ ساتھیاں دا مہربانی ہی قانون اے۔ اس مہربانی دے بدلے اس نے سو دو سو روپے لے لئے ہوں گے۔“اس ملک میں مہربانی اور”تھوڑی“(chin) کو ہاتھ لگانا بھی رحم دلی کا ”غیر تحریری“unwritten قانون ہے جیسے محکمہ مال کا unwritten قانون ہے کہ”ہر آئے گئے افسر کی خدمت اور چائے پانی کا انتظام کر نا۔“یہ ہے بھی درست کہ کوئی بھی پٹواری، گرداور یا تحصیل دار اپنی جیب سے افسر کی خدمت کے اخراجات تو برداشت کرنے سے رہا۔ اس کا بوجھ آخر کار سائل کو ہی برداشت کرنا ہوتا ہے۔ بعد میں وہ نصراللہ صاحب سیکرٹری ریونیو بورڈ رہے اور وہیں سے ریٹائر ہوئے تھے۔


نگران حکومت؛


1993ء کا جنرل الیکشن آ یا تومعین قریشی نگران وزیر اعظم بن گئے۔ انہوں نے آتے ہی گریڈ 17 اور اس سے اوپر سبھی افسران کا تبادلہ کر دیاکہ شفاف الیکشن کے لیے یہ پہلا قدم تھا۔ میں بھی کھاریاں سے اگست 93میں گوجرانوالہ صدر ٹرانسفر ہوا۔جہاں مجھے انتخابات کے بعد تک کا وقت تو گزارنا تھا۔ اب کوئی پوچھے کیا شفاف الیکشن کے لیے ضروری ہے کہ افسران کو ایک جگہ سے دوسری جگہ بھیج دیا جائے؟ نئی جگہ جا کر بھی افسر کا اختیار و ہی رہتا ہے۔ یہ کیوں تربیت کا حصہ نہیں کہ سرکاری ملازموں کا کام عوام کی بہتری اور سرکار وقت کی پالیسیوں پر عمل درآمد ہے نہ کہ سیاسی جماعتوں کا آلۂ کار بننا؟ جو کوئی کسی بھی سیاسی جماعت یا اس کے کسی کارندے کا آلۂ کار بنے تو اسے سرکاری نوکری سے رخصتی کا پروانہ دے کر نوکری سے ہی فارغ کردینا چاہیے مگر سوال یہ ہے کہ ”بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا۔“


سیکرٹری کم حکیم زیادہ؛


دیہی ترقیاتی مرکزگوجرانوالہ کا دفتر ضلع کچہری میں واقع تھا۔ شیخ عارف یہاں اکاؤٹنٹ تھا جبک سب انجینئرکی پوسٹ خالی تھی اور7 سیکرٹری یونین کونسلز محمدریاض، محمد یونس بٹ، جاوید اقبال، غلام رسول، سردار خاں اور حسین رضا تھے۔ جلد ہی میری ان سب سے اچھی انڈرسٹنڈنگ ہو گئی تھی۔ اکاؤنٹس کلرک عارف تیز اور چا لاک جبکہ باقی عملہ اچھے ورکر اور سیانے تھے۔(جاری ہے)


نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

آل اسٹار ٹیکنالوجی آن لائن ٹیکنالوجی: ٹیک، AI، ایرو اسپیس، بایوٹیک، اور توانائی کی خبروں کے لیے آپ کا ذریعہ

آرین اسٹار ٹیکنالوجی، ایک ٹیکنالوجی نیوز پورٹل۔ ٹیکنالوجی، مصنوعی ذہانت، بائیوٹیکنالوجی، ڈیٹا اور دیگر شعبوں میں تازہ ترین پیشرفت کی اطلاع دینے کے لیے وقف ہے۔
© ایرن اسٹار ٹیکنالوجی رازداری کی پالیسی ہم سے رابطہ کریں